احساسِ یتیمی ھے ویراں ھے علیؑ کا گھر
بن باپ کے یہ پہلی رات آئی ھے بچوں پر
روتی تھیں کہیں زینبؑ شبیرؑ کہیں شبرؑ
فضہ نے جو دیکھا تو کہنے لگیں رو روکر
ماں بھی نا ہو دنیا میں اور باپ بھی مرجائے
اللہ کسی پر بھی یہ وقت نہیں آئے
اللہ اللہ اللہ اللہ
یہ رات خدا جانے کس حال میں گزریگی
بچوں کی نگاہوں میں تصویر ھے بابا کی
بابا سے جدا ہوکر کسطرح جیا جائے
میت جہاں رکھی تھی زینبؑ وہیں بیٹھی ھے
عباسؑ کے چہرے کو اب دیکھ کے روتی ھے
کہتی ھے کوئی میرے بابا کو بلا لائے
ہاتھوں میں رقیہ کے بابا کا مصلہ ھے
کلثومؑ کے ہاتھوں میں بابا کا عمامہ ھے
بابا نہیں آئینگے اب کون یہ بتلائے
ماں یاد جو آئے تو ھو آتے تھے تربت پر
رخصت کیا بابا کو حسنینؑ نے یہ کہکر
ملنے کہاں جائینگے جب باپ کی یاد آئے
اب مجھکو رلاتا ھے شہزادی کا وہ کہنا
فضہؑ میرے بچوں سے تم دور نہیں رہنا
ماں باپ کے بن جینا مشکل ھے بہت ھائے
ذیشان و رضا ھائے نوحہ تھا یہ فضہؑ کا
اب بیٹیوں کے سر پہ سایہ نہیں بابا کا
مشکل ھے یتیموں پر یہ رات گزر جائے
اللہ اللہ اللہ اللہ