لکھا ھے یاحُسینؑ محرم کے چاند پر
زہراؑ بھی آگئیں ہیں بقیعہ کو چھوڑ کر
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ھے جسکا در
آجاؤ اُس حُسینؑ کی جانب کریں سفر
جو کبریا کی شان محمدؐ کی جان ھے
ہاں اپنے زائروں کا جو خود میزبان ھے
دم بدم قدم قدم ھےدل میں عشقِ کربلا حُسینا حُسینا
زائروں کے قافلوں سے آرہی ہے یہ صدا
حُسینا حُسینا
چلے چلو بڑھے چلو
حُسینؑ کی صدا سنو
حُسینؑ تمکو بلارہے ہیں
ھے سامنے کربلا
اکبرؑ کے ساتھ غازیؑ خود لینے جارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
پرچم کے سائےمیں ھے عباسؑ کی سواری
مہماں نوازیوں کی تیاریاں ہیں جاری
شبیرؑ کا حرم ھے ہلچل ھے خادموں میں
گنبد پہ شاہِ دیں کے پرچم لگارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
جو بےکفن ہے اُسکا دربار سج رہا ھے
وہ ہورہا ھے جو بھی عباسؑ نے کہا ھے
ہیں سُرخ روشنی میں کالے لباس والے
رو روکے فرشِ ماتم خادم بچھارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
نورانی چہرے والے گالوں پہ خاک مل کر
زوار آرہے ہیں پیدل نجف سے چل کر
اِس عشق کےسفرمیں ہرشخص میزباں ہے
کچھ لوگ راستے سے پتھر ہٹارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
خدمت گزار بن کر بیٹھے ہیں سب فرشتے
آئے ہیں زائروں کے قدموں کی خاک لینے
رتبہ وہ جانتے ہیں مولاؑ کے زائروں کا
جبرئیل آسماں سے سبکو بلارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
رو روکے کہرہے ہیں افسوس ہے یہ بی بیؑ
اےکاش ھم جو ھوتے عاشور والے دن بھی
نولاکھ ظالموں میں تنہا نا ہوتے مولاؑ
لبیک کہرہے ہیں اور روتے جارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
اُن پر سلام ہو جو بےساکیوں پہ آئے
پاؤں کے بل نہیں تھے پھر بھی نہ لڑکھڑائے
ملتی نہیں سبھی کو یہ عشق کی بلندی
بس یاحُسینؑ کہکر وہ چلتے جارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
تھامے ہوئے تبرک راہوں میں جو کھڑے ہیں
قاسمؑ کا نام لیکر تقسیم کر رہے ہیں
دونوں جہاں میں ایسا جذبہ کہیں نہ دیکھا
جو سال بھر کمایا وہ سب لٹارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
یہ وہ زمیں ھے جس پر پیاسی رہیں سکینہؑ
غازیؑ کو یاد کرکے روتی رہیں سکینہؑ
اب اس زمیں پہ کوئی پیاسہ نہیں ہے دیکھو
پیاسوں کو مشک والے پانی پلارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں
ذیشان اور رضا جب مولاؑ کے پاس جانا
حُرؑ کی قسم ھے تمکو تبدیل ھوکے آنا
اے زائرینِ مولاؑ ھے اصل یہ زیارت
اُنکی ھے میزبانی جو حُرؑ بنارہے ہیں
سلطانِ کربلا کے مہمان آرہے ہیں