مرنے کیلئے جب چلے میدان میں اکبرؑ
پیچھے چلے گرتے ھوئے اُٹھتے ھوئے سرورؑ
جب دور ھوا شاہؑ کی آنکھوں سے وہ دلبر
لوٹ آئے کہا مادرِ اکبرؑ سے یہ روکر
لیلٰیؑ دعائیں کیجئے جیتا رھے اکبرؑ
بیٹے کے حق میں ماں کی دعا رد نہیں ھوتی
رخصت کی گھڑی یادہےتم بھی تو وہیں تھی
اکبرؑ کے کلیجے سے نظر ھٹتی نہیں تھی
لیلٰیؑ ھمارے لال کا نازک سا ھے سینہ
سینے پہ نا بیٹا میرا کھائے کوئی برچھی
اس بات پہ شبیرؑ کا دل پھٹتا ھے غم سے
ایسے تو کبھی دور نا اکبرؑ ھوئے ھم سے
اکبرؑ کو جیتا دیکھکر ھم جیتے رھے ھیں
اکبرؑ کو مرتا دیکھکر مرجائینگے ھم بھی
میں بھول نہیں پاؤنگا احسان تمھارا
اِس عالمِ غربت میں دو تم ساتھ ھمارا
اکبرؑ میرا جوان اور ھم پر ھے ضعیفی
ھم سے تو جواں لال کی میت نا اُٹھیگی
اب جلد دعا کیلئے ھاتھوں کو اُٹھالو
اے مادرِ اکبرؑ میری زینبؑ کو بچالو
اٹھارا سال اُسنے ھی اکبرؑ کو ھے پالا
اکبرؑ کی لاش دیکھکر وہ کیسے جئیگی
سہرے کے سجانے کا جو ارمان ھے لیلٰیؑ
ارمان ھی رہجائیگا اکبرؑ جو نا اْیا
اکبر کو اپنے ھاتھ سے ھم دولہا بنائیں
اٹھارویوں منت بھی تو ھمکو ھے بڑھانی
آواز یہی آتی ھے صغراؑ کی وطن سے
اکبار ملادے خدا بھائی کو بہن سے
اکبرؑ سے مل نا پائی تو مرجائیگی صغراؑ
معلوم ھے تمکو میری بیمار ھے بیٹی
یہ کہتے ھوئے لیلٰی نے ھاتھوں کو اُٹھایا
جسطرح سے یعقوب کو یوسف سے ملایا
اکبر کو ایک بار تو سرورؑ سے ملادے
مرجاؤنگی یہ بات میں اب سن نا سکونگی
لوٹ آیا جو میدان سے شبیرؑ کا دلبر
پیاسہ ھوں بہت باپ سے کہنے لگے اکبرؑ
پانی کی بات آئی تو رونے لگے مولاؑ
خیمے کی سمت دیکھکر آواز یہی دی
زیشان و رضا وہ جواں پھر رن کو سدھارا
سینے پہ سناں کھائی تو بابا کو پکارا
پہنچے جواں کے پاس جب روتے ھوئے سرورؑ
برچھی یہی کہتے ھوئے سینے سے نکلالی